Fatwa against ISIS

Fatwa by His Eminence Shaykh Abdullah bin Bayyah (hafizahu'Llahu ta'ala) on ISIS

(translated from the Arabic into Urdu by Tahir Mahmood Kiani

The original fatwa in Arabic by the eminent Shaykh is available here, and the English translation by Shaykh Hamza Yusuf  (hafizahu'Llahu ta'ala) is available here.

A PDF version of this Urdu translation is available here.)

19 - ذو القعدة 1435هـ / 14- ستمبر 2014م

 

جنت جانے کا یہ کون سا طریقہ ہے ؟! 

'نصیحت و خطاب'

 

نوجوانوں کے لئے نصیحت:

الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على سيدنا محمد نبي الرحمة ورسول الحكمة وعلى آله الأطهار وصحابته الأبرارصلاة وسلاما دائمين إلى يوم الدين۔

 

سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کی پرورش فرمانے والا ہے، اور ہمیشہ درور و سلام ہمارے آقا محمّد (‍‌‌صلّی اللہ علیہ وسلّم) پر جو  رحمت والے پیغمبر اور حکمت والے رسول ہیں، اور آپ کی پاک آل اور نیک صحابہ پر، تا یوم آخر قائم رہے۔ آمین۔

عزیز جوانو! جنہوں نے اپنی امّت کے خلاف ہتھیار اٹھا لئے ہیں اور کئی شہروں اور لوگوں پر غلبہ پا لیا ہے، اور (اسی نتیجہ میں) کئی ممالک کو (اپنا) د‍‌شمن بنا لیا ہے اور بہت سے اچھے اصولوں کو برباد کر دیا ہے۔ ہم تمہیں ایک لمحہ فکریہ کی طرف دعوت دیتـے ہیں، اور نصیحت کے میلان کی طرف (خاص کر) ان کو جو امّت کے لئے بھلائی چاہتے ہیں۔

اس بیان میں ہم چار نقاط پیش کر رہے ہیں:

1۔  قرآن مجید سے:

"وَإِذَا تَوَلَّىٰ سَعَىٰ فِى ٱلۡأَرۡضِ لِيُفۡسِدَ فِيهَا وَيُهۡلِكَ ٱلۡحَرۡثَ وَٱلنَّسۡلَ‌ۗ وَٱللَّهُ لَا يُحِبُّ ٱلۡفَسَادَ ۔" (البقرة 205) ( اور جب وہ پھر جاتا ہے تو زمین میں کوشش کرتا ہے کہ اس میں فساد پیدا کرے اور کھیتیاں اور جانیں تباہ کر دے، اور ﷲ فساد کو پسند نہیں فرماتا۔)

کیا کھیتیاں تباہ نہیں ہوئیں اور کیا جانیں، بزرگ اور خواتین ہلاک نہیں ہو ئے؟ کیا یہی وہ زمین میں فساد نہیں ہے جس کو ﷲ تعالی پسند نہیں فرماتا؟

2۔ فرمان رسول (‍‌‌صلّی اللہ علیہ وسلّم) سے:

" وَيْلَكُمْ، أَوْ وَيْحَكُمْ، انْظُرُوا، لاَ تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا، يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ۔" (خبردار ہو جاؤ! غور سے سنو! میرے بعد کفر کی طرف واپس مت لوٹ جانا کہ تم ایک دورسرے کی گردنیں کاٹنے لگو!) یہ قطعہ رسول اللہ (‍‌‌صلّی اللہ علیہ وسلّم) کے خطبہ حجّۃ الوداع کے آخری حصّہ سے ہے۔

علما‌ء کرام فرماتے ہیں کہ جب لوگ ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگاتے ہیں تو وہ انہیں قتل کے ارادے سے کفر کی تہمت لگارہے ہوتے ہیں۔ (کلمہ 'ویلکم' یا 'ویحکم' (خبردار ہو جاؤ) شدّت کے ساتھ متنبہ کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے جسے رسول اللہ (‍‌‌صلّی اللہ علیہ وسلّم) نے بہت کم مرتبہ استعمال فرمایا ہے۔) کیا یہ وہی تكفير اور جنگ و جدال نہیں ہے جس سے آپ (‍‌‌صلّی اللہ علیہ وسلّم) نے منع فرمایا تھا!

 

3۔ امير المؤمنين حضرت عمر بن الخطاب (رضي الله عنه) سے:

" فَمَنْ بَايَعَ رَجُلًا عَلَى غَيْرِ مَشُورَةٍ مِنَ المُسْلِمِينَ، فَلاَ يُتَابَعُ هُوَ وَلاَ الَّذِي بَايَعَهُ، تَغِرَّةً أَنْ يُقْتَلاَ۔" (جس نے بھی کسی شخص کے ساتھ مسلمانوں سے رائے لئے بغیر بیعت کی تو اس کی اتباع نہیں کی جائے گی اور نہ ہی اس کی جس سے اس نے بیعت کی، اس ڈر سے کہ کہیں وہ دونوں قتل نہ کر دئے جائیں)" (حضرت عمر بن الخطاب (رضي الله عنه) کا آخری خطبہ از صحیح البخاری)

جس شخص نے سب مسلمانوں کا خلیفہ ہونے کا ارادہ کیا ہے، کیا اس نے عالم اسلام سے مشورہ کیا ہے یا اس نے اپنے آپ کو اور جو اس سے بیعت کرے گا اس کو قتل ہونے پر آمادہ کیا ہے؟ کیا امير المؤمنين نے اسی بات کی تنبیہ نہیں فرمائی کہ لوگوں پر اپنی انفرادی رائے مسلّط نہ کی جائے؟

4۔ امام السنّة حضرت امام احمد بن حنبل (رحمۃ الله تعالى علیہ) کی نصیحت اهل بغداد کے لئے جب انہوں نے عباسی خلیفہ ، جس نے قرآن مجید کو مخلوق ہونے کا دعوی کیا، اس کے خلاف بغاوت کرنا چاہی:

" لا تسفكوا دماءكم ودماء المسلمين معكم وانظروا في عاقبة أمركم۔" (ایک دوسرے کا (ناحق) خون مت بہاؤ، اور مسلمانوں کا خون تمہی میں سے ہے۔ پس اپنے مسائل میں (کوئی آسان راہ) دیکھ لو۔)

کیا یہ وہی خونریزی نہیں ہے جس کے بارے میں حضرت امام احمد بن حنبل (رحمۃ الله تعالى علیہ) نے اہل بغداد کو تنبیہ فرمائی تھی؟

ہم آپ سے شفقت کے ساتھ ان روشن نقاط پر غور کرنے کی امید کرتے ہیں، اور یہ کہ آپ اپنے آپ کو واپس لائیں گے (اور اپنا محاسبہ کریں گے)، کیونکہ حق کی طرف لوٹنا باطل پر اڑے رہنے سے بہتر ہے۔

ہم مظالم سے غافل نہیں ہیں، اور ان کے ازالہ کے لئے پر زور کوشاں ہیں، لیکن ہمیں یقین ہے کہ سلامتی کے ساتھ عدل کے مواقع جنگ کی فرضیت کے مواقع سے بہتر ہیں۔ ہم پر لازم ہے کہ تباہکن لڑائی سے توقف کیا جائے اور ہر جگہ سے اندھے فتنوں کو ختم کر دیا جائے تاکہ ہم زندگی کو نفع پہنچا سکیں اور دنیا و آخرت میں گھاٹا نہ پائیں۔

ہم اللہ تعالی سے ہر کسی کے لئے ہدایت کی دعا کرتے ہیں۔ آمین۔

 

امّت اور اس کے رہنماؤں کو خطاب:

'سوچ و فکر کا خطاب، کیوں؟'

اس سال "اسلامی معاشروں میں تنشیر امن کا فورم، ابو ظبی" کی پہلی نشست (جمادى الأولى1435 هـ / مارچ 2014م) ہوئی، جس میں دنیا بھر سے 250 سے زا‏‏ئد مسلمان علماء و مفکرین تشریف لائے، اس کے مقاصد میں یہ بھی شامل ہے کہ سب ایک ہی موقف پر اکٹھے ہو جائیں؛ ان خطرات کے بارے میں جن میں سے امّت مسلمہ اپنی حیات کے اس کٹھن دور سے گزر رہی ہے۔

یہ خطرات پانچ بعدوں (زاویوں) کی عکاسی کرتے ہے:[1]

1۔ بعد نوعی: جیسے کہ اتنی زیادہ شدّت اختیار کرنا جتنی پہلے کبھی نہ ہوئی ہو جس میں غیر استثنائی طور پر اسلحہ استعمال ہو بشمول دھماکہ خیز مواد کے جسے ایک ہی وطن کے فرزند ایک دوسرے کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔

2۔ بعد مکانی: جیسے جغرافيائی وسعت و پھیلاؤ جس میں بہت سارے عربی اور اسلامی ممالک اور دیگر علاقے ایک ہی خطے میں شامل ہوں۔

3۔ بعد زمنی: جیسے متنازغ مسائل عرصۂ دراز سے مسلسل چلے آرہے ہوں گویا کہ یہ ایسا امر معتاد ہے جس کی کوئی انتہا نہیں۔

4۔ بعد فکری و بعد نفسی: یہ پہلی تین بعدوں (زاویوں) کو قوّت دیتی ہے، اور وہ اس طرح کہ اس فتنہ میں شدّت کے افکار، فتووں میں اغلاط، اور آراء میں تعصّب سختی سے پیدا ہونے لگتے ہیں۔ پس اس میدان میں آگ تیزی سے بھڑک اٹھتی ہے جس سے پھیلنے لگتے ہیں بڑے بڑے فتوے برائے تکفیر، ضلالت، فسق و بدعت، اور جن سے خون بہانا مباح قرار دے دیا جاتا ہے، شریعت کی اطاعت اور احترام آدمیّت ختم ہو جاتی ہیں، مختلف ممالک کی ‌‌‌حفاظت خطرے میں پڑ جاتی ہے، جہاد کی پکار اپنی اصلی جگہ سے ہٹ جاتی ہے، اور "نهي عن المنكر" (برائی سے روکنا) بغير ضوابط کے اس بات کے کرنے کا حکم دیـتے ہیں جس کی ممانعت (اصل سے) بھی زیادہ سخت ہے۔

5۔ بعد دولی: سابقہ کل عالمی سطح پر اسلام کے چہرے کو مسخ کر رہے ہیں، اور عنقریب اسلام کو "دہشت گرد مذھب" قرار دیا جا سکتا ہے، اور اقوام متحدہ کی ميثاق کی فصل نمبر سات  (United Nations Charter, Chapter VII)   کے تحت اسلام اور اہل اسلام  پر  حکم جاری کیا جا سکتا ہے۔

اس فورم کی سفارشات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ گھروں کی اسلامی ترتيب کی اشد اور فوری ضرورت ہے، اور اس کے افراد کی ،جماعتوں کی اور تنظیموں کی اصلاح کرنی ہے۔ تاکید اس بات پر ہے کہ مختلف طریقوں اور مصادر سے نمودار ہوتی انتہاپسندی اور اس کے اندر  بڑھتی ہوئی شدّت کے خلاف امّت کی قوّت مدافعت کو مضبوط کیا جائے۔ اسلامی معاشرے اس وقت افراد، جماعتوں، سیاسی تنظیموں، حکومتوں اور ممالک سے نیکی اور تقوے کی بنیاد پر تعاون کی التجا کرتی ہے، اور یہ کہ انسانی اور قومی مصلحتوں کو اپنی (ذاتی اور) خصوصی مصلحتوں پر ترجیح دیں، اور اتحاد اور اتفاق کے ساتھ ایک ہی منهج پر چلیں تاکہ عمومی ترقی یقینی ہو۔[2]

پچھلے چند ہفتوں اور مہینوں میں بہت سے واقعات بہت تیزی سے رونما ہو ئے، اور فضول اور تباہکن جنگوں کے وتیروں میں کثرت ہوئی جن سے کوئی شہری اور کوئی مذھب نہ بچ سکا۔ اس سے بلا شک مزید تاکید پیدا ہوتی ہے ان انجاموں کے بارے میں جن سے اس فورم نے آگاہ کیا تھا اور ان پر شریک ہونے والوں کی بحثوں نے، ان کے بیانات نے، ان کی سفارشات نے اور ان کے مشوروں نے  فوری عمل کی ضمانتیں دی تھیں۔

آج یہ فورم از سر نو درج ذیل نقاط سے ہر اس شخص کو متنبہ کرنا چاہتا ہے اور یاد دلانا چاہتا ہے جو امّت کے حال پر پریشان ہے اور اس کی اصلاح کی امید رکھتا ہے:

ا۔ علماء کرام اور مذہبی پیشواؤں پر اس وقت بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ جو انسانی اور بشری ضیاع اس وقت امّت مسلمہ کو ہو رہا ہے، اگر کسی عقل والے آدمی کو محض تماشائی بن کر بیٹھے رہنے کی اجازت نہیں ہے، تو یہ ذمہ داری اس پر کتنی زیادہ عائد ہوتی ہوگی جس سے اللہ تعالی نے عہد لیا ہو؟! حال تو یہ ہے کہ بہت سے ایسے ہیں جو دین کو کبھی تكفير کے فتووں کے لئے استعمال کرتے ہیں اور کبھی بھائی بھائی ہونے کا دعوی کرتے ہیں، یا وہ شریعت کے احکام کو حالت جنگ میں بھی نافذ کرتے ہیں گویاکہ انہوں نے کبھی بسر بن ارطاة کی صحيح حديث، اور دیگر مشہور آثار اہل علم سے سنی ہی نہیں۔ کبھی وہ اہل توحید پر شرک کے فتوے لگاتے ہیں، ظلم کے بدلے ظلم کے دعوے کرتے ہیں، حق کے ذریعے باطل کا حصول، اور باطل کو حق کا جامہ پہنا کر پیش کرنا؛ پھر یہی باتیں لوگوں میں عام ہو گئیں، جن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو علم کے ساتھ نسبت رکھتے ہیں۔ شبہات اور متشابہات آپس میں مل گئیں، اور بہت سے معلومات حاصل کرنے کے وسائل نے صفحات کی پیچیدگیوں کو درست نہیں کیا، اور اس طرح غلط فہمیاں پیدا ہو گئیں اور قدم اکھڑ گئے۔

علماء کرام اور دانشوروں کے پاس اب کوئی عذر نہیں ہے وعظ و نصیحت کے فریضہ کو امّت تک نہ پہنچانے کا؛ حق کا ساتھ دیـتے ہو ئے اور برّ وتقوى پر تعاون کرتے ہو ئے، تاکہ فتنوں کی آگ کو بجھایا جا سکے اور خونریزی پر قابو پایا جا سکے:

"وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ۔" ( اور نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو، اور ﷲ سے ڈرتے رہو۔ بیشک ﷲ (نافرمانی کرنے والوں کو) سخت سزا دینے والا ہے۔)

ب۔جن فتنوں سے آج امّت مسلمہ دو چار ہے، ان کا بہت بڑا حصہ شرعی غلط فہمیوں کی وجہ سے اسلامی معاشرے کے بہت سارے حصے پر غبار آلودگی ہے[3] ، جیساکہ شریعت کا نفاذ، خلافت کا قیام، امر بالمعروف اور نهي عن المنكر، جہاد، حکمرانوں کی اطاعت، (وغیرہ)۔۔۔ ۔ یہ تمام سوچیں اصل میں امن و سلامتی کی ضامن ہیں، زندگی کی حفاظت کا ذریعہ ہیں، اور اللہ تعالی کی رحمت کا مظہر ہیں جنہییں اسلام رسول اللہ (‍‌‌صلّی اللہ علیہ وسلّم) کی زبان مبارک کے ذریعے لایا ہے۔ جب انہیں حقیقت سے ہٹ کر سمجھا گیا، اور ذہنوں میں کوئی ایسی شکل اختیار کی گئی جو اصلی معنی و صورت سے مختلف ہے تو ایسے اعمال پیدا ہونگے جو اپنے اصلی مقصد، ہدف اور نتیجہ سے ہٹ کر ہوں گے، جس کی وجہ سے وہی رحمت امّت کے لئے عذاب میں بدل جائے گی جس میں گناہگار اور نیکوکار برابر پس جائیں گے، اور جس کی اشاعت و ترویج میں عالم اور جاہل برابر کے شریک ہوں گے۔

اس کے اسباب میں درج ذیل پیچیدگیاں ہیں:

1۔ حکم تكليفی اور حکم وضعی میں عدم ربط: شرعی احکام تكليفی، یعنی واجب ہونا، مندوب  ہونا، حرام ہونا، مكروہ ہونا، اور جائز ہونا؛ حکم وضعی، یعنی اسباب، شرائط اور موانع؛ کے دائرے کے اندر ہے۔ دونوں کے مجموعے سے صحيح مفهوم ملتا ہے: اگر ہم امر اور نہی کے ما بین ربط کو کھو دیں،  شرائط کے پورا ہونے، اسباب کے پائے جانے اور موانع کے عدم وجود میں تعلّق کو نہ پائیں، تو احکام لغو اور شریعت کے مخالف  ہو جائیں گے۔

اس سے واضح ہوا کہ احکام کے نفاذ اور زمان و مکان کے تقاضوں، اور مصلحتوں اور مفسدات میں تعلّق کھو دیا گیا ہے۔

2۔ وسائل اور مقاصد میں غیر واضح تعلّق: مقاصد، نتائج، طریقوں اور وسائل میں عدم تعلّق کی وجہ سے شریعت کی مخالفت ہوتی ہے، یعنی برے مقاصد کے وسیلے برے ہی ہوا کرتے ہیں، اور نیک مقاصد کو صرف اچھے وسیلوں سے ہی پایا جا سکتا ہے۔ پس یہ ممکن نہیں ہے کہ حق و عدل کے قیام کی خاطر دہشت گردی اور قتل و غارت ، اور ظلم و انتقام کا سہارا لیا جائے۔

3۔ ان چار خصلتوں کا کمزور پڑ جانا جن پر شریعت قائم ہے: اور وہ ہیں؛ حكمت، عدل، رحمدلی اور مصلحت.

ت۔ جهاد، قتال کے مترادف نہیں ہے۔ ہر قتال جهاد نہیں ہے، اور نہ ہی ہر جهاد قتال ہے۔ شریعت کی نصوص کے مطالعہ سے واضح ہے کہ جهاد ہر نیکی کو شامل کرتا ہے؛ والدين کی خدمت جهاد ہے: "ففيهما فجاهد"[4] (اور ان دونوں میں جهاد کرو۔)، الله تعالى کی اطاعت جهاد ہے، جس کے بارے میں حديث ہے: "والمجاهد من جاهد نفسه في طاعة الله وجل" [5] (مجاہد وہ ہے جو الله تعالى کی اطاعت میں اپنی (پوری) جان کے ساتھ کوشش کرے۔)

لهذا، ہم تمہیں اس جهاد کی طرف بلاتے ہیں جس کے بارے میں کوئی شک نہیں کہ تمہیں جنت میں داخل کر دے گا اور تمہیں (جہنّم کی) آگ سے دور کر دے گا، (اور وہ ہے: ) الله تعالى کا ذکر، مسجدوں کی تعمیر، لوگوں کے ساتھ بھلائی، زمین کو آباد کرنا۔ شيخ الاسلام ابن تيميہ نے کہا ہے کہ 'بے شک جهاد سب نیکیوں کو شمار کرتا، جس میں تجارت اور صنعت بھی شامل ہیں، اختيارات بعلي کی طرح۔'

آج تمہاری امّت کو ترقّی کی خاطر مصلحتوں کے حصول کے لئے تمہاری مدد، اور تمہاری منظّم عقلوں اور طاقتوں کی کتنی اشدّ ضرورت ہے!

جهاد بمعنی ' قتال' مذہب کی آزادی کے دفاع کو کہتے ہیں:

"الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ ۔" (الحج:40)  ( (یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے صرف اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب ﷲ ہے۔)

اور غیر مسلمانوں کے ساتھ تعلّقات بنیادی طور پر امن و سلامتی پر مبنی ہیں،([6]) جبکہ جهاد اصلی طور پر 'دائمی امن و سلامتی' کی جستجو ہے۔ اسی لئے سب مسلمانوں کو امن و سلامتی میں داخل ہو جانے کا کہا گیا ہے: "يأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱدۡخُلُواْ فِي ٱلسِّلۡمِ كَآفَّةٗ وَلَا تَتَّبِعُواْ خُطُوَٰتِ ٱلشَّيۡطَٰنِۚ إِنَّهُۥ لَكُمۡ عَدُوّٞ مُّبِينٞ ۔ " ( البقرة : 208 ) ( اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ، اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ۔)

اور انہیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ جب بھی امن و سلامتی کا موقع پائیں تو اسے قبول کر لیں: "وَإِن جَنَحُواْ لِلسَّلۡمِ فَٱجۡنَحۡ لَهَا وَتَوَكَّلۡ عَلَى ٱللَّهِۚ ۔" (الأنفال: 61) ( اور اگر وہ (دشمن) صلح کے لئے جھکیں تو آپ بھی اس کی طرف مائل ہوجائیں اور اللہ پر بھروسہ رکھیں ۔)

جیسا کہ سب جانتے ہیں، رسول اللہ (‍‌‌صلّی اللہ علیہ وسلّم) صلح حديبيہ کے موقع پر امن و سلامتی  کی خاطر (امن کی طرف) مائل ہو ئے ۔

جهاد بمعنی 'حرب' ان حالات میں ہوتا ہے جب کوئی بھی ایسا معاہدہ نہ ہو جو سارے عالم کو پابند کرے اور نہ ہی کوئی میثاق ہو، اور ان میں اس دعوت کو پہنچانے کا ذریعہ ابلاغ بواسطۂ جنگ اور کوئی نہ ہو، اور ان میں بین الاقوامی حدود صرف طاقت کے زور سے یا لمبی مسافت سے ہی پائی جائیں، اور ان میں زیادہ شدّت والے ہتھیار (weapons of mass destruction) استعمال نہ ہوں۔

یہ سب کچھ اب بدل چکا ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی مسلمان شریعت کی نصوص اور اس کے مقاصد کو سمجھے اور پھر بھی دیگر ممالک کو جنگ کرنے کی دعوت دے؟ سوائے کسی بےوقوف اور زمین میں فساد پیدا کرنے والے کے جو اسلام کی حقائق سے بےخبر ہے۔

ج۔ شریعت کے بہت سے ایسے احکام ہیں جن کو شارع نے عام افراد کی بجا‏ئے حکمرانوں کے ساتھ مختص کئے ہیں، یا حکمران جن کے سپرد کر دیں، اور ان احکام میں جهاد اور امر بالمعروف اور نهي عن المنكر شامل ہیں۔ بعض حالات میں نهي عن المنكر کے مقاصد کا صحیح اندازہ نہیں ہوتا، اور انہیں اجتهاد کی ضرورت پڑتی ہے جو ہر کوئی تحقیق سے نہیں کر سکتا۔ بعض حالات میں وہ اس سے بڑے منکر کا پیش خیمہ بن جاتا ہے اور اس حالت میں اس سے منع کرنا عام افراد کے لئے حرام ہے۔[7] اسی طرح جهاد کے متعلّق، جو دشمن ملک سے بیرونی طور پر جنگ کرتا ہے اور اس پر لشکر سے چڑھائي کرتا ہے یا وہ اندرونی طور پر باغیوں سے لڑائی کرتا ہے وہ حکمران ہی ہے، جیسا کہ امام القرافي المالكي نے (اپنی کتاب) الفروق[8] میں کہا ہے، حکمران کے تصرفات کی وضاحت کرتے ہو ئے، اس بات کو بیان کرتے ہیں کہ اس قسم کے تصرفات عام افراد کے لئے جائز نہیں ہیں کہ وہ اپنائیں، اور یہ کہ صرف حکمران ہی انہیں اپنا سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں، بعض جماعتوں کا زور کے ذریعے منکر کو تبدیل کرنا، یا جهاد کا اعلان کرنا، بہت زیادہ فتنہ و فساد بپا کرتا ہے۔

ح۔ خلافت ایک رحمت ہے، دین کے قیام کا ایک ذریعہ ہے، اور انسانی زندگی کے پانچ کلیات؛ یعنی دين، جان، مال، نسل اور عقل کی حفاظت کرتی ہے۔

اسلامی خلافت وہ ہیئت ہے جس کو صحابۂ کرام (رضي الله عنهم)  نے پسند فرمایا تھا تاکہ مسلمانوں کو اکٹھا رکھا جا سکے، ان کے امور کو ایک نظام کے تحت رکھا جاسکے جس میں احکام شریعت قائم ہوں، اور ان کی جان، عزّت اور مال کی حفاظت ہو۔ خلافت کوئی عقیدہ نہیں ہے؛ یہ فقہی مسئلہ ہے جو حکم وضعی کا تقاضا کرتا ہے اس اعتبار سے کہ وہ کئی وسائل میں سے صرف ایک وسيلہ ہے، اور آج اس کی جگہ اتحاد مملکت، اس کی یگانگت اور اس کی تکمیل کے لئے کئی اور وسائل رائج ہیں، حتی کہ اسلامی ممالک کئی صدیوں سے خلافت سے جدا رہے ہیں لیکن ان کا دین قائم رہا، ان کا شریعت کے نفاذ، شعائر اسلام، امن و سلامتی کی کوششیں جاری رہیں اور اب بھی جاری ہیں۔ ہماری شریعت کی تعبیر معاني سے ہے نا کہ الفاظ و مباني سے، اسی لئے ، اگر فرض کیا جائے کہ نظام خلافت آسانی سے میسّر نہیں ہے،تو اس کا قیام زور کے ساتھ کوئی شرعی وجوب نہیں رکھتا۔ پس، ایسا پھر کیوںکر ممکن ہوگا ان افراد سے جو زمین میں فساد پھیلانے کی کوشش کریں، معصوم اور مستثنی لوگوں کا قتل کریں، کمزوروں کو ڈرائیں دھمکائیں، مسجدوں کو شہید کریں، عبادتگاہوں کو تباہ و برباد کریں، اور قبروں کو کھود ڈالیں؟ جبکہ رسول اللہ (‍‌‌صلّی اللہ علیہ وسلّم) نے کسی کنیسہ، گرجا یا آتشکدہ کو کبھی نہیں گرایا، اور نہ ہی آپ کے خلفاء نے، جیسا کہ ابن القيم نے کہا ہے۔

خ۔ مذھبی اقليتوں پر ظلم کرنا اور ان پر ہر قسم کی زیادتی کرنا ہمارے دین کی خصوصیات کے خلاف ہے؛ ہمارے دین نے تو مذھبی اقليتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی نصیحت کی ہے، انہیں مسلمانوں کی ذمہ داری میں ڈالا ہے، اور جو ان پر ظلم کرے گا اس سے سخت سزا کا وعدہ کیا ہے ۔ امّت مسلمہ نے اس بات پر ہمیشہ عمل کیا ہے، جس کی اور مثال تاریخ میں نہیں ملتی، مذھبی اقليتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہو ئے مل جل کر رہے ہیں اور اکثر  انسانی بھائیچارے اور ہموطنی کی بنا پر حقوق و واجبات کے تقاضوں سے بڑھ کر دیا ہے۔ پس، دین میں تبدیلی کرنے کا کوئی بھی حملہ چاہے وہ کسی بھی نوعیّت یا زبردستی کا ہو قبول نہیں کیا جائیگا؛ اسلام اس سے بری ہے: "لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّين" (دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔) زبردستی کا اسلام صحیح نہیں ہے۔

د۔ جان کے دفاع کی حالت کے علاوہ جھگڑا و فساد اور دشمن پر حملہ اسلامی خصائص نہیں ہیں چاہے کوئی ان پہ تقوی کا لباس پہنائے۔ یہ ہماری اسلامی ثقافت کی داخلی خصوصیات ہیں۔ پس، تخریب کاری کبھی بھی ہماری ثقافت میں تعمیراتی اساس نہیں رہی، بلکہ یہ جہالت اور تعصب کا نتيجہ رہی ہے، اور لا قانونیت اور انتقام کا اثر ہے۔ ہماری جو خصوصیات ہیں، وہ لوگوں پر اعتبار، دلوں میں محبت، باطل کو حق سے دفاع کرنے ناکہ دشمنی سے، اور برائی کو صبر، درگزری اور معافی کے بدلے کی بنا پر قائم ہے:

"وَقَٰتِلُواْ فِي سَبِيلِ ٱللَّهِ ٱلَّذِينَ يُقَٰتِلُونَكُمۡ وَلَا تَعۡتَدُوٓاْۚ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ ٱلۡمُعۡتَدِينَ-" (البقرة:190) ( اور ﷲ کی راہ میں ان سے (دفاعاً) جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں، لیکن حد سے نہ بڑھو؛ بیشک ﷲ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔)

"ٱدۡفَعۡ بِٱلَّتِي هِيَ أَحۡسَنُ ٱلسَّيِّئَةَۚ-" (المؤمنون:96( ( آپ (برائی کو) ایسے طریقہ سے دفع کیا کریں جو سب سے بہتر ہو۔)

"وَيَدۡرَءُونَ بِٱلۡحَسَنَةِ ٱلسَّيِّئَةَ ۔" (القصص: 54( ( اور وہ (مسلمان)  برائی کو بھلائی کے ذریعے دفع کیا کرتے ہیں۔)

ذ۔ اسلامی معاشرے اس ضرورت کے دہانے پر ہیں کہ ان میں امن و سلامتی کی مقصديت اور ترجیح واضح خصوصیات کے ساتھ رچ بس جائیں، اور وہ یہ ہیں: اسلامی اور انسانی قدریں، امن و مصالحت کی فقہ بشمول اس کے مفردات، قواعد، جزئيات اور كليات کے، تاکہ مل جل کر رہنا اور امن و سلامتی کو ترجیح دی جا سکے، کچھ غلط فہمیوں کو دور کیا جا سکے، محبت و یکجہتی کو رائج کیا جا سکے، اور تكفير، تشهير اور جھگڑوں سے بچا جا سکے، تاکہ عقل، فقه، اور اعتبار مصالح کی ثقافت غالب آئے، مفسدات سے بچا جائے اور حکمت کا راستہ اپنایا جائے، حتى کہ ہر مسلمان اپنی اسی دنیا میں اپنے دین پر عمل کر کے زندگی گزار سکے اور اسے کوئی اجنبیّت، قلق، حرج اور دشواری محسوس نہ ہو۔

پس ہم از سر نو علماء کرام، فلسفیوں، ادیبوں اور دانشوروں کو دعوت دیتـے ہیں کہ وہ ذرائع ابلاغ اور (بالخصوص) انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سے استفادہ کرتے ہو ئے اس کلمۂ خیر کو اور اس کے اثرات کو باہم زندگی گزارنے اور ایک دوسرے سے امن و سلامتی کے ساتھ رہنے کے مقصد کی خاطر دوسروں تک پہنچائیں، اور تاکہ اسلامی معاشروں میں امن و سلامتی کی پاسداری کی ترویج ہو۔

ہم مختلف طریقوں اور پروگراموں سے فکری تنقید کی طرف دعوت دیتـے ہیں تاکہ دقيق نظر سے حقائق کی تفتیش کی جا سکے اور اس کی ضروریات، اكراهات، افكار، اور ادوات کو پہچانا جا سکے۔

ہم دعوت دیتـے ہیں دراسات شرعيہ کا علمی، فهمی، تدبری، تفكری، تأويلی، تعليلی، اور نزول کے اعتبار سے گہرے مطالعے کی طرف تاکہ نصوص (شرعيہ) کا نطق اور اس کے مفاہیم کی تحقیق کی جا سکے، اور اس کے جزئيات کو اس کے كليات میں شامل کیا جا سکے، اور مذاهب میں باہم معتبر اختلاف کے اعتبار کو  دوبارہ عام کیا جا سکے۔

اس میں کوئی تبديلی و تغير نہیں ہے، بلکہ بحثوں کے متعدّد طریقوں کی اصل کی طرف لوٹنا ہے اور بتدریج مختلف طریقوں سے گزرنا ہے۔ اس طرح ہمیں شريعت کی وسعت، رحمت، شموليت، اور حكمت حاصل ہوگی۔ تمام حل شريعت کی رحم سے، روح سے اور مقاصد سے ہی ملتے ہیں۔

یہ ایک فوری ضرورت کا متلاشی مسئلہ ہے جسے علماء کرام اور مذہبی لوگوں کو چاہئے کہ بہادری کے ساتھ اس کا مقابلہ کریں تاکہ امت کو نہ ختم ہونے والی جنگ سے بچایا جا سکے۔ اسی طرح سیاستدانوں اور تشویش رکھنے والے لوگوں پر فرض ہے کہ وہ مظالم کو رفع کریں، اور عالمی تنظیموں پر لازم ہے کہ وہ اس خطے میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر زیادہ عدل اور احساس کا مظاہرہ کریں۔

ز۔ آخر میں، ہم اس امّت کے نوجوانوں کو خصوصی طور پر خبردار کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اس دنیا میں زمین پر فتنہ و فساد کی آگ کا ایندھن اور آخرت میں جهنم کی آگ کا ایندھن نہ بنیں۔ ہم انہیں دعوت دیتـے ہیں کہ وہ ثبوت پیش کریں ان دعووں اور وعدوں کا جو ان سے کئے جاتے ہیں، اور اللہ تعالی کے دين اور اس کی شريعت کے احکام کے ساتھ تعلّق قائم رکھیں تاکہ متشابهات کے چنگل سے بچ سکیں اور حق کو باطل میں گم نہ کر دیں۔ یہ بالخصوص ان کے لئے ہے جو عربی زبان اچھی طرح نہیں سمجھتے اور نہ ہی قرآن کی زبان کو۔ پس کسی مسلمان کو کافر نہیں کہا جائیگا سوائے جب وہ ایسا کچھ کہے یا کوئی ایسا کام کرے جو (کفریہ ہو اور) قابل تأويل نہ ہو۔ رسول اللہ (‍‌‌صلّی اللہ علیہ وسلّم) نے کسی مسلمان کو گالی دینا فسق ، اور اس کے خلاف لڑائي کرنا کفر قرار دیا ہے، جبکہ اللہ تعالى نے انسانی جان کو مطلقا معصوم کہا ہے:

"وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَق ۔" (الإسراء:33) (اور تم کسی جان کو قتل مت کرنا جسے (قتل کرنا) ﷲ نے حرام قرار دیا ہے۔)

اور صرف ایک جان کا قتل کرنا تمام بشریّت کے قتل کرنے کے مترادف قرار دیا ہے:

"أَنَّهُ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا۔" (جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد انگیزی کے بغیر (ناحق) قتل کر دیا تو گویا کہ اس نے تمام انسانیّت کو قتل کر ڈالا اور جس نے اسے زندہ رکھا تو گویا کہ اس نے تمام انسانیّت کو زندہ رکھا۔)

حديث پاک میں آیا ہے:

" لَنْ يَزَالَ المُؤْمِنُ فِي فُسْحَةٍ مِنْ دِينِهِ، مَا لَمْ يُصِبْ دَمًا حَرَامًا"[9] (مومن اپنے دین میں آزاد رہتا ہے جب تک کسی کو ناحق قتل نہ کر دے۔)

                             

                              و ‍‌‌صلّی الله على سيدنا محمد وعلى آله وصحبه وسلم تسليما

اللہ تعالى درود و سلام بھیجے ہمارے آقا محمّد پر، آپ کی آل اور آپ کے صحابہ پر۔ آمین۔

شیخ عبداللہ بن بیّہ

صدر؛ اسلامی معاشروں میں تنشیر امن کا فورم، ابو ظبی

19 - ذو القعدة 1435هـ / 14- ستمبر 2014م

 انظر ورقة المؤتمر[1]

 انظر البيان الختامي للمنتدى الأول لتعزيز السلم في المجتمعات المسلمة.[2]

 انظر البيان الختامي للمنتدى الأول لتعزيز السلم في المجتمعات المسلمة.[3]

[4] - صحيح البخاري، كتاب الجهاد والسير، باب: الجهاد بإذن الوالدين، الحديث: 3004.

[5] -  رواه الإمام أحمد في مسنده وأبو داوود في سننه عن فضالة بن عبيد وهو حديث حسن، رواه الحاكم في المستدرك على الصحيحين (1/54) رقم 24 ؛ وصححه ابن حبان في صحيحه (11/204)؛ وأحمد في المسند  رقم : 2400.

[6] -  شيخ عبد الله بن بيه کی کتاب "الإرهاب: التشخيص والحلول" ملاحظہ فرما‏ئیں۔

[7] - إعلام الموقعين عن رب العالمين، 3/12، ابن القيم الجوزية، تحقيق: محمد عبد السلام إبراهيم، دار الكتب العلمية، بيروت، ط1-1411هـ/1991م.

[8] - الفروق، لأبي العباس أحمد بن ادريس القرافي، 1/206،  عالم الكتب، د.ت.

 رواه البخاري في كتاب الديات، باب قول الله تعالى ( ومن يقتل مؤمنا متعمدا) وأحمد في المسند (مسند عبد الله بن عمر رضي الله عنهما)...[9]